Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر25

دو دِن بعد ساوی کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ وہ دُرید سے تو نہیں مگر شاہ میر کے ساتھ کافی گُھل مِل گئی تھی۔ نرس کے کہنے پہ وہ شاہ میر کو خود ہی فیڈ کرواتی تھی کہ ابھی اُسے ماں کی ضرورت تھی۔شاہ میر میں اُسے ایک کشش سی محسوس ہوتی تھی جو ساوی کو اُس کی طرف کھینچتی تھی۔ اور یہ کشش ممتا کی تھی جسے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ دُرید سے اُس کا رویہ اچھا نہیں تو بُرا بھی نہیں تھا۔ دُرید افرحہ کو فون کر کے اپنے آنے کا بتا چُکا تھا۔ وہ ساوی کو سہارا دیے گاڑی تک لایا۔ اُس کے ساتھ ملیحہ بیگم تھیں جنہوں نے شاہ میر کو تھام رکھا تھا۔ دُرید اُن کا احسان مند تھا جنہوں نے اُس کی زندگی کا اِتنا خیال رکھا تھا۔ اِس لیے وہ اُن کو اپنے ساتھ چلنے کا کہہ گیا تھا کہ وہ گھر میں سب سے مل لیں۔ ملیحہ بیگم دُرید کو بتا چُکیں تھیں کہ ساوی اُنہیں کہاں سے ملی اور وہ کب سے اُن کے ساتھ تھی۔ جس پہ دُرید نے خدا کا شُکر ادا کیا تھا۔ جس نے اُس کی زندگی کو محفوظ رکھا ورنہ معاشرے میں ایسے بہت سے بھیڑیے موجود ہیں جو ہمیشہ شکار کی تاک میں رہتے ہیں۔ وہ جس وقت گھر پہنچے اُس وقت دس بج رہے تھے۔ وہ ساوی کو سہارا دیتا اندر لایا۔ ساوی کو اُس سے ایک جھجک سی ہو رہی تھی اُسے کُچھ بھی یاد نہیں تھا تو یہ جھجک فطری تھی۔ مگر بغیر سہارے کے وہ چل بھی نہیں سکتی تھی۔ اِس لیے وہ دُرید کو کُچھ کہہ بھی نہ پائی کہ اُسے ہاتھ مت لگائے۔ وہ لاونج میں داخل ہوئے تو نظر سامنے پڑی جہاں افرحہ نادیہ بیگم اور شایان صوفوں پر بیٹھے بے صبری سے اُن کا انتظار کر رہے تھے جبکہ بوا ساوی کے لیے پرہیزی کھانا بنا رہی تھیں۔ اُن کی بیٹی امرین جو وقتی طور پر یہاں کام کے لیے آئی تھی واپس گاؤں جا چُکی تھی۔ نادیہ بیگم کی نگاہ دروازے پر گئی تو وہ شایان کا سہارا لیتے کھڑی ہو گئیں اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے ساوی کی طرف بڑھنے لگیں۔ افرحہ اور شایان بھی نم آنکھوں سمیت اُن کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھے۔ نادیہ بیگم نے روتے ہوئے اُسے گلے سے لگایا تو وہ الجھی نظروں سے دُرید کو دیکھنے لگی۔ اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ سب رو کیوں رہے تھے مگر دُرید نے کوئی جواب نہ دیا۔ نادیہ بیگم اُسے الگ کرتی اُس کا چہرہ چومنے لگیں۔ "بہت یاد کیا ہے میں نے تُمہیں کوئی ایسا بھی کرتا ہے کیا؟ ایسے ہمیں۔۔۔۔۔۔۔" نادیہ بیگم نم آنکھوں سے اُس سے شکوہ کرنے لگیں کہ دُرید یکدم اُن کی بات کاٹ گیا۔ "چچی ماں آپ روئیں مت۔ ساوی بلکل ٹھیک ہے اُسے کُچھ نہیں ہوا دیکھیں آپ کے سامنے ہی تو کھڑی ہے۔ اور اپنے نواسے سے نہیں ملیں گیں آپ؟" وہ ملیحہ بیگم۔کے ہاتھوں میں موجود شاہ میر کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ "نواسا" نادیہ بیگم کہتیں شاہ میر کو گود میں لیے کہنے لگیں۔ شایان اور افرحہ بھی حیران ہوئے کہ اُنہیں بھی اِس بات کا پتہ نہیں تھا۔ "اب ہمیں یہیں کھڑا رکھیں گی؟ باقی باتیں اندر جا کے کریے گا آپ کی نور ابھی ٹھیک نہیں ہے۔" اُس نے مصنوعی غُصّے سے کہا۔ " ماما مُجھے بھی دِکھائیں نا " . ساوی سے ملنے کے بعد افرحہ نے نادیہ بیگم سے کہا۔ "ہاں ہاں یہ لو" نادیہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں اور شاہ میر کو افرحہ کو سونپا تو اُس نے احتیاط سے اُسے تھام لیا۔ "میرا بے بی۔ میں آپ کی پھوپھو ہوں پہچانا مجھے" افرحہ شاہ میر سے لاڈ سے باتیں کرنےلگی۔ "تُم اُس کی ممانی ہو افرحہ" شایان نے درید کو گھورتے ہوئے افرحہ سے کہا۔ وہ تب سے چپ ہی کھڑا تھا مگر افرحہ کی بات پہ بول پڑا تھا۔ "نہیں میں پھپھو ہوں آپکی بیوی بننے سے پہلے میں درید بھائی کی بہن تھی۔ اِس لیے میں اِس کی پھپھو ہوں" افرحہ نے نفی کرتے ہوئے کہا۔ "بچو بحث بعد میں کرنا پہلے ساوی کو روم میں لے جاتے ہیں وہ تھک گئی ہو گی۔" نادیہ بیگم کے کہنے پر دُرید ساوی کو لیے جانے لگا کہ شایان اُس کا راستہ روک گیا۔ "میں لے جاتا ہوں اپنی بہن کو۔" اُس نے درید کو دیکھتے تلخی سے کہا۔ تو درید پیچھے ہٹ گیا۔ شایان نے ساوی کو سہارا دیا اور اُسے آہستہ آہستہ اُس کے کمرے میں لے جانے لگا۔ "ساوی کو میرے روم میں چھوڑ کے آو شایان۔ اُس کا سیڑھیاں چڑھنا مناسب نہیں۔" درید نے پیچھے سے شایان کو پُکارا جو ساوی کو سیڑھیوں کی طرف لے جا رہا تھا۔ اُسکی بات پہ شایان لب بھینچے مُڑا اور ساوی کو دُرید کے کمرے میں لے جانے لگا کہ بہرحال وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ دُرید سب کو لیے لاونج میں بیٹھ گیا۔ اور سب کا ملیحہ بیگم سے تعارف کروایا اور یہ بھی بتایا کہ ساوی گھر سے جانے کے بعد اِن کے پاس ہی تھی۔ بوا نے اُن کو لوازمات سرو کرنا شروع کیے پھر وہ ساوی کے کمرے میں اُس کے لیے سوپ لیے چلی گئی جو کہ دُرید نے کہا تھا۔ "آپ کا بہت بہت شُکریہ بہن آپ نے میری بچی کا اتنا خیال رکھا۔ " نادیہ بیگم اُن کا شکریہ ادا کرنے لگیں۔ "نہیں اِس میں شُکریہ کی کوئی بات نہیں یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی ساوی بہت اچھی لڑکی ہے۔" ملیحہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "جی یہ تو آپ کا بڑا پن ہے۔" نادیہ بیگم نے کہا۔ " اب میں چلتی ہوں بہت اچھا لگا آپ سے مل کر پھر کبھی فرصت سے آوں گی۔" ملیحہ بیگم اُٹھتے ہوئے بولیں۔ "ارے اتنی جلدی؟ لنچ آپ ہمارے ساتھ کریں ہمیں اچھا لگے گا۔" نادیہ بیگم نے روکنا چاہا۔ "جی ضرور کرتی مگر مجھے جانا پڑے گا این جی او کا بہت ضروری کام ہے اِس لیے معذرت۔" انہیں واقعی ضروری کام تھا۔ "چلیں ٹھیک ہے مگر آپ پھر کبھی ضرور آیے گا ہمیں اچھا لگے گا" "جی ضرور اب میں چلتی ہوں اللّٰہ حافظ۔" سب سے ملتیں وہ باہر چلیں گئیں درید اُن کو دروازے تک چھوڑنے گیا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو شایان بھی لاونج میں موجود تھا۔ "ساوی کُچھ بول کیوں نہیں رہی جب سے آئی ہے چُپ ہے ورنہ پہلے تو وہ بہت بولتی تھی وہ پہلے والی ساوی تو لگ ہی نہیں رہی۔" شایان نے اُس سے تندہی سے پوچھا۔ "وہ پہلے والی ساوی ہے بھی نہیں۔" اُس کی بات پہ سب حیرانی سے اُسے دیکھنے لگے۔ "کیا مطلب بھائی؟" اُن کے دلوں میں مچلتے سوال کو افرحہ نے زبان دی۔ "وہ اپنی یاد داشت کھو چکی ہے اُسے اپنی پچھلی زندگی کا کُچھ بھی یاد نہیں۔" دُرید کی بات پہ سب کو اپنے سروں پہ بم پھٹتا محسوس ہوا۔ "کیا بکواس کر رہے ہو تُم ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ وہ ہمیں کہسے بھول سکتی ہے؟" شایان غصے سے پھٹ پڑا۔ "یہی سچ ہے" اور پھر وہ اُن کو سب کُچھ بتاتا چلا گیا کیسے ساوی کو نرس بریک ڈاون ہوا کہسے اُس کی میموری پہ ایفیکٹ ہوا اور کیسے اُس نے اپنے رشتے کا یقین دِلایا۔ ساری بات سُننے کے بعد اُن کے چہروں پہ فکر کے سائے تھے۔ "اب کیا ہوگا ؟ کیا اُسے کبھی کُچھ یاد نہیں آئے گا؟ " نادیہ بیگم نے پوچھا۔ "ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ہم اُسے یاد دلانے کی کوشش کریں یا اُسے ایسی جگہوں پر لے جائیں جہاں اُس کی اچھی یادیں جُڑیں ہیں تو اُسے یاد آسکتا ہے" درید نے ڈاکٹر کی بات دُہرائی۔ " یااللّٰہ میری بچی کی زندگی میں آسانیاں لِکھ دے" نادیہ بیگم نے بے اختیار دُعا کی۔ "ماما ہم ساوی کے پاس چلتے ہیِں اُسے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔" افرحہ نے کہا تو نادیہ بیگم سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ "چچی ماں! ساوی کو ایسی کوئی بات یاد مت دلایے گا جس سے اُس کی طبیعت بِگڑے۔ میرے بارے میں وہ بس اتنا ہی جانتی ہے کہ میں اُس کا شوہر اور کزن ہوں۔ اور یہ کہ ہمارا نکاح بچپن میں ہوا تھا اور سادگی سے رُخصتی۔" دُرید نے نظریں چُراتے کہا تو نادیہ بیگم افسوس اور دُکھ کے ملے جُلے تاثرات لیے سر ہلاتی ساوی کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔


اُن کے جانے کے بعد دُرید نے شایان کی طرف دیکھا جو اُس کی طرف طنزیہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔ "اب تو وہ واپس آگئی ہے اب بھی معاف نہیں کرو گے؟" درید نے شایان سے پوچھا۔ "کیا میری بہن نے تُمہیں معاف کر دیا؟" سوال پہ سوال ہوا۔ " اُسے کُچھ بھی یاد نہیں میں اُس سے معافی کیسے مانگتا؟ " درید نے بھی سوال کے بدلے سوال کیا۔ "اُسے سب یاد آگیا اور اُس نے تُمہیں معاف کر دیا تو میں بھی تُمہیں معاف کر دوں گا" شایان نے بے نیازی سے کہا۔ "میں تمہارا کزن ہی نہیں بیسٹ فرینڈ بھی ہوں" دُرید نے یاد دِلایا۔ "اور وہ میری بہن ہے جس کی تُم نے زندگی برباد کر دی کہ آج وہ سب کو بھول بیٹھی ہے۔" شایان نے تلخی سے تند لجے میں کہا۔ "وہ میری بیوی تھی جو ہوا وہ غلط بھی نہیں تھا حلال تھی وہ مُجھ پر" اب کے دُرید بے بس ہوا۔ تب تُم جانتے تھے کہ وہ حلال ہے تُم پر بیوی ہے تُمہاری؟ شایان نے پوچھا۔ " نہیں۔ مگر میں ہوش میں نہیں تھا۔" اُس کے سوال پر دُرید لاجواب ہوا ہاں تب تو وہ نہیں جانتا تھا۔ "گُناہ گُناہ پوتا ہے ہوش میں کیا جائے یا بے ہوشی کی حالت میں۔ آئندہ مُجھ سے اِس بارے میں بات مت کرنا جس دِن میری بہن تُمہیں معاف کر دے گی میں بھی کر دوں گا۔" شایان نے دو ٹوک کہا۔ "نہیں کروں گا" دُرید کا لہجہ دھیما تھا۔ "اشعر کو کیوں ٹارچر کیا تھا تُم نے ؟ " شایان کے سوال پر وہ بھونچکا ہوا یہ بات تو اشعر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا پھر شایان کو کیسےپتہ۔ "اتنا حیران مت ہو جو پوچھا ہے وہ بتاؤ " اُس کی بات پہ دُرید کُھل کر ہنسا اُسے وہ دِن پوری جُزئیات سے یاد آیا تھا پھر وہ شایان کو سب بتاتا چلا گیا۔


ساوی کے جانے کے ایک ہفتہ بعد کی بات تھی۔ اشعر کو حنا بیگم کی زُبانی سب کُچھ پتہ چل چُکا تھا اور وہ بہت خوش تھا دُرید کی ہار پر۔ اُسے ساوی سے کوئی عشق تو تھا نہیں جو اُس کی جُدائی میں مجنوں بن جاتا وہ تو بس اُسے پسند کرتا تھا مگر درید بھی ساوی کو پسند کرتا تھا اور وہ بلاوجہ دُرید سے ضد لگا بیٹھا تھا۔ اور ساوی کے ساتھ دُرید نے خود ہی ظلم کر دیا تھا اُسے کُچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ اب وہ مطمئن سا تھا۔ عانیہ کا رشتہ پکا ہو چکا تھا رافع سے جو کہ اُس کے ماموں کا بیٹا تھا اور عانیہ کو پسند بھی کرتا تھا اور حنا بیگم کے پوچھنے پر عانیہ نے ہاں میں جواب دیا تھا۔ اب کسی نہ کسی سے شادی تو کرنی ہی تھی تو رافع سے ہی سہی۔ وہ گھومنے کے لیے نکلا تھا۔ درید کی ہار پہ آجکل وہ یوں ہی خوش تھا ساوی اگر اُس کے پاس نہیں تھی تو دُرید کے پاس بھی نہیں تھی۔ "اشعر " اپنے نام کی پُکار پر وہ پیچھے پلٹا تھا سامنے اجنبی سے چہرے کو دیکھتے وہ حیران ہوا تھا۔ یس؟ وہ سوالیہ ہوا۔ وہ آدمی اُس کے نزدیک ہوا جیسے کوئی بات کرنے لگا ہو اور اگلے ہی لمحے اُس نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور کلوروفارم میں بھیگا رومال اشعر کی ناک سے لگا دیا۔ اشعر کُچھ سیکنڈ میں ہی بے ہوش ہو گیا اور وہ آدمی اُسے اُٹھاتا گاڑی میں ڈال کے روانہ ہو گیا۔ آس پاس لوگ نہ تھے جو اُس کی یہ کاروائی دیکھتے اور اُسے روکتے۔


اُس کی آنکھیں منہ پر پانی پڑنے سے کھلیں تھیں۔ وہ بھاری ہوتا سر ہلاتے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا اُس کے ہاتھ کھلے تھے پاوں بھی آزاد تھے۔ وہ ایک سُنسان سی جگہ تھی شاید کوئی فیکٹری جس کی تعمیر ادھوری چھوڑ دی گئی تھی۔ بے ہوش ہونے سے پہلے کا سارا واقعہ اُس کی نظروں میں گھوم گیا۔ وہ حیران ہوا کہ کرنیپ کرنے والے نے اُسے آزاد کیوں رکھا ہے ایسے تو وہ بھاگ بھی سکتا ہے یہ سوچتے ہی وہ باہر کا راستہ ڈھونڈنے آگے بڑھا مگر سامنے سے دُرید کو آتے دیکھ کر حیران ہوا۔ "تُم یہاں ؟ اوہ تو تُم نے مجھے کرنیپ کروایا ہے ؟ کیوں ساوی کے بھاگنے کا بدلہ مُجھ سے لو گے؟ آہ بیچارا درید محبوبہ اوپس سوری بیوی چھوڑ کے بھاگ گئی۔ تمہاری تو عزت مٹی میں مل گئی نا" وہ پہلے حیران ہوا پھر اُس کا مزاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔ " بدلہ تو میں لوں گا اور ضرور لوں گا مگر ساوی کے چھوڑ جانے کا نہیں بلکہ ہر اُس بات کا جس کی وجہ سے میں ساوی سے بدگمان ہوا اُس پہ غصہ کیا اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔ تمہاری باتوں پر یقین کر کے میں نے اُس کو تکلیف پہنچائی اور وہ بھاگی نہیں ہے ناراض ہے مُجھ سے۔ اور جلد ہی ڈھونڈ کے منا بھی لوں گا۔ مگر اِس سے پہلے تُمہیں سزا ضرور دوں گا تاکہ آئیندہ تُم کسی اور کی محبت پہ نظر ڈالنا تو دور اس بارے میں سوچو بھی نہ۔" وہ اُسے سامنے کھڑا ہوتا زہر خند لہجے میں بولا۔ "اچھا بدلہ لو گے لو بدلہ میں بھی تو دیکھوں" وہ اُسے غصہ دِلانے والے انداز میں بولا اور ایک پنچ بنا کے اُس کے منہ پہ مارا ۔ درید یکلخت پیچھے ہوا ورنہ اشعر کا مکہ اُس کی ناک پہ لگتا۔ اُس نے ایک ہاتھ سے اشعر کا بازو پکڑا اور پیچھے کی طرف موڑا اور زور دار پنچ اُس کے منہ پہ دے مارا۔ اشعر جھٹکا کھا کے پیچھے ہوا اور لات مارنے کو آگے بڑھا مگر درید نے اُس کی لات پکڑ کے زور سے کھینچا کہ وہ ذمین پر گر گیا۔ درید نے اُس کی کمر پہ پے در پے ٹھوکریں رسید کیں کہ وہ سنسان جگہ اشعر کی چیخوں سے گونج اُٹھی۔ "مجھ سے میری زندگی چھیننے کی کوشش کی۔ میں نے خود اُسے خود سے دور کر دیا تمہاری وجہ سے۔ اُسے بے انتہا تکلیف پہنچائی۔ تمہاری وجہ سے۔ اُس کا مجھ پر سے اعتبار اُٹھ گیا۔ تمہاری وجہ سے۔ سب کی نظروں میں گر گیا صرف اور صرف تُمہاری وجہ سے۔" اُس پہ لاتوں گھونسوں کی بارش کرتا وہ ساتھ ساتھ ہر بات دُہرا رہا تھا۔ "تم نے جھوٹ بولا کہ اُس کا رشتہ تم سے طے ہوا ہے مگر حقیقت تو یہ تھی کہ وہ میری منکوحہ تھی وہ میرے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔"اُس نے لگاتا ر اشعر کے چہرے پر تھپڑ مارے۔ "یہ سزا تو بہت کم ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں مگر جو تکلیف تُم نے مجھے دی ہے وہ بہت زیادہ ہے" وہ اُس کے چہرے پہ دھاڑتا اُس کے بال نوچتے ہوئے بولا۔ اشعر خود کو بچانے کی کوشش کرتا اُس پہ وار کرنے لگا مگر درید کی دی چوٹوں نے اُسے بے بس کر دیا اور وہ نیچے پڑا کراہتا رہ گیا۔ "میں نے تُمہیں آزاد اِس لیے رکھا کہ بعد میں تُم یہ نہ کہو کہ درید احمد نے ایک بندھے ہوئے انسان پر وار کیا ہے " درید نے اُسے کرسی پر بٹھاتے باندھتے ہوئے کہا۔ "پلیز جانے دو۔ مجھے معاف کر دو آئیندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا اپنی شکل بھی نہیں دکھاوں گا" وہ چیختا ہوا معافی مانگنے لگا۔ "آئیندہ میں تُمہیں اِس کا موقع ہی نہیں دوں گا اشعر۔ تُمہیں کیا لگا تھا میں کمزور ہوں جو تُمہیں جواب نہیں دے سکتا۔ مجھے جواب دینا اچھی طرح آتا ہے کسی بھول میں مت رہنا اور اب سڑو یہاں۔ اگلی بار کے لیے خود کو تیار کر لینا اگلی ڈوز دینے جلدی آوں گا۔" وہ کہتا ہوا باہر نکل آیا۔ پیچھے اُسے اشعر کی چیخیں سُنائی دے رہیں تھیں مگر اُس نے کان بند کر لیے تھے۔ پھر اگلے تین دِن تک اُس نے اشعر کو ٹارچر کیا تھا تین دِن اُسے بھوکا پیاسا رکھ کر اُس نے جیسے اپنے غصے کو ٹھنڈا کیا تھا۔ اگر اُس کی غلطی تھی تو اشعر بھی برابر کا حق دار تھا جو ہوا اُسی کی وجہ سے ہوا تھا۔ اگر دُرید کو ساوی کی جدائی کی صورت سزا ملی تھی تو پھر اشعر کو وہ کیوں بخشتا۔ تین دن بعد اُس نے اشعر کو اِس دھمکی کے ساتھ چھوڑا تھا کہ وہ اُس کی زبان نہ کُھلے اور اشعر نے سر ہلا کر وعدہ کیا تھا۔ ویسے بھی بھوک اور پیاس کی وجہ سے اُس کے حلق سے آواز تک نہیں نکلی تھی۔ درید اُسے ہسپتال چھوڑ آیا تھا جہاں اُس کا ٹریٹمنٹ کیا گیا حنا بیگم کو درید نے ہی فون کر کے اطلاع دی تھی جو کہ اشعر کی گمشدگی پر بہت پریشان تھیں۔ اور پھر اشعر کے ملنے پر انہوں نے درید کا شکر ادا کیا تھا جو اُسے بروقت ہسپتال لے آیا تھا۔


درید کی ساری بات سُن کر شایان نے افسوس سے سر ہلایا۔ "تُم نے اچھا نہیں کیا اُس کے ساتھ" شایان نے تبصرہ کیا۔ "اچھا یا برا جو بھی ہو اب میں سکون میں ہوں" درید نے اگنور کیا۔ " ہنہ". شایان منہ موڑ گیا۔ درید نے کُچھ بھی کہنا بے کار سمجھا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ نادیہ بیگم اور افرحہ ساوی سے باتیں کر رہیں تھیں اُسے اُس کی پچھلی زندگی کی باتیں یاد دِلا رہیں تھیں۔ افرحہ تو باقاعدہ سارے البم اُٹھا لائی تھی اور اب اُسے تصویریں دکھا رہیں تھیں۔ درید مسکراتا ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ "اور یہ دیکھو اِس پکچر میں تم درید بھائی کی گود میں بیٹھی ہو" افرحہ ایک تصویر پر ہاتھ رکھتے بولی۔ اور درید پُرشوق نظروں سے ساوی کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ساوی سامنے درید کو بیٹھا دیکھ کر جھینپی اور شرم سے سُرخ چہرہ لیے البم پر جھک گئی۔ درید نے اُس کے چہرے پر حیا کے آتے جاتے رنگوں کو خوشگواریت سے دیکھا۔ "مم خخ خود دیکھ لوں گی" وہ منمنائی۔ "اچھا ٹھیک ہے تُم دیکھو اور آرام بھی کرو ہم چلتے ہیں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو درید کو بتانا وہ لادے گا۔" نادیہ بیگم افرحہ کو اشارہ کرتیں باہر نکل گئیں۔ اُن کے جانے کے بعد دُرید سیدھا ہو کے اُس کے برابر بیٹھتا بیڈ کراون سے ٹیک لگا گیا اور وہ بے اختیار پیچھے کو کھسکی۔ "ڈر کیوں رہی ہو؟ شوہر ہوں تُمہارا۔ کوئی ڈریکولا تو نہیں۔" اُس کی حرکت پہ وہ خفگی سے بولا۔ "نن نہیں وہ میں ایسے ہی۔" اُس سے بات نہ بن سکی تو وہ منمنا کر رہ گئی۔ "اچھا گھبراو مت۔ مجھے پتہ ہے تُمہیں کُچھ یاد نہیں ہے۔ اِس لیے تُمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہاری اجازت کے بغیر میں تمہیں ہاتھ بھی لگاوں گا۔" وہ اُس کے چہرے پہ جھجک کے تاثرات دیکھتا نرمی سے بولا۔ "جی" وہ مدھم لہجے میں بولی اور خدا کا شُکر ادا کیا کہ وہ اُس کی بات سمجھ گیا تھا۔ "تُم آرام سے لیٹ جاو اور خود کو ریلیکس رکھو" اُس کی ہدایت پر عمل کرتی وہ لیٹ گئی اور سکون سے آنکھیں موند لیں۔ جلد ہی وہ گہری نیند میں چلی گئی۔ درید نے شاہ میر کو دیکھا جو پُرسکون سا سو رہا تھا۔ دُرید کو اکثر حیرت ہوتی تھی شاہ میر بہت سوتا تھا۔ شاہ میر پر سے نظر ہٹا کر وہ ساوی کا ہاتھا تھامتا لبوں سے لگا گیا اور اُسکا ہاتھ اپنے دِل پر رکھتا لیٹ گیا۔

   0
0 Comments